ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / خلیجی خبریں / زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بلکہ مذہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے:دانشوران

زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بلکہ مذہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے:دانشوران

Tue, 08 Nov 2016 19:01:52  SO Admin   S.O. News Service

نئی دہلی، 8؍نومبر(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا )اردوزبان کے فرو غ کے لیے فکر مند ادیبوں اور ماہرین تعلیم کا خیال ہے کہ اس زبان کو صرف مسلمانوں کی زبان کے طورپرپیش کرکے ایک مخصوص حلقے میں محدود کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ پورے ملک میں اورمختلف کمیونٹیوں میں بولی جاتی ہے اور اس کی ترقی میں سب کی اہم شراکت ہے۔اس کے علاوہ اردو اور ہندی چھوٹی اوربڑی بہنیں ہیں اور ان میں آپس میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ساہتیہ اکیڈمی کے اردو ایڈوائزری بورڈ کے کنوینر اور اس کے ایگزیکٹو بورڈ کے رکن چند ربھان خیال نے کہا کہ سازش کے طورپر اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کے دائرہ کومحدودکیا جا رہا ہے لیکن اس کی زبان کا مستقبل روشن ہے کیونکہ یہ پورے ملک میں بولی اور پسند کی جاتی ہے۔جودھپور میں واقع مولانا آزاد یونیورسٹی کے وائس چانسلر اورسابق کمشنر برائے لسانی اقلیات پروفیسر محمد اختر الواسع نے کہا کہ اردو اور ہندی کو ایک دوسرے کا مخالف بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ان دونوں ہی زبانوں کے معمار امیر خسرو تھے اور اسے حضرت نظام الدین اولیاء کا تحفظ بھی ملا۔اردو کی ترقی کے لیے کوشاں تنظیم اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن ہر سال 9 ؍نومبر کویومِ اردوکاانعقادکرتا آ رہا ہے اور یہ 1997سے اب تک جاری ہے۔چند ربھان خیال نے میڈیا سے خصوصی بات چیت میں کہاکہ اردودنیاکی تیسری بڑی زبان ہے۔ہندوستان میں بھی اس کا بول بالا ہے۔تاہم سیاسی پارٹی سیاسی فوائد کے لیے اردوکا استعمال کر رہی ہیں۔اردو کا مزاج بالکل سیکولر ہے ،جب سے اردو کی زبان وجود میں آئی ہے ،تبھی سے ہندو، مسلم ،سکھ اور عیسائی ،سبھی کمیونٹیوں کے لوگوں نے اس کے فروغ میں حصہ لیا ہے اور اس کے ادب میں سبھوں کا کافی تعاون رہاہے۔انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں اور اکاڈیمیوں کے اردو سکھانے والے کورسو ن میں90فیصد طالب علم غیر مسلم ہوتے ہیں۔اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مذہب کی کوئی زبان نہیں ہوتی ہے بلکہ مذہب کوزبانوں کی ضرورت ہوتی ہے، پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ اردو اور ہندی کو ایک دوسرے کا مخالف بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اصغر وجاہت اور بسم اللہ خان کے بغیر ہندی ادب میں ادھوراپن لگتا ہے ویسے ہی گوپی چند نارنگ، رگھوپتی سہائے فراق، اور راجندر سوری کے بغیر اردو ادب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔


Share: